Header Ads Widget

Responsive Advertisement

شبِ قدر کی فضیلت

 شبِ قدر کی فضیلت


حضرت مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں ، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمت کی عمر سب سے چھوٹی  پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے  پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شبِِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے  ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (تفسیر کبیر،جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 231 ، تحت الآیۃ :3)


شبِ قدر  میں عبادت کرنے کی فضیلت

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 626 ، حدیث نمبر 1901)


 حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں : رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ، جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 134)


علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا ۔ (فیض القدیر ، جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 248، تحت الحدیث:8902،چشتی)


 شبِ قدرکب ہوتی ہے؟

محترم قارئین کرام : اللہ کریم  نے اپنی مَشِیَّت (مرضی) کے تَحت شَبِ قَدر کوپوشیدہ رکھا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یقین کےساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے ۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث : 2017)


اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالٰی اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے ، تاہَم بھاری اکثریَّت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے ۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے ۔ (صحیح مسلم ، صفحہ نمبر 383 ، حدیث نمبر 762)


شبِ قدر کے نوافل

فقیہ ابواللّیث ثمر قندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں،جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے ۔ (روح البیان، جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 483)


شبِ قدر کی دعا

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ۔

ترجمہ : اے اللہ بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے ۔ (جامع ترمذی ، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 306 ، حدیث نمبر 3524)


ایک تشریح

’’إِِنَّا أَ نْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ ا لْقَدْ رِصلے وَمَا أَ دْ رٰکَ مَا لَیْلَۃُ ا لْقَدْ رِ oط لَیْلَۃُ ا لْقَدْ رِ خَیْرٌمِّنْ أَ لْفِ شَہْرٍ oط تَنَزَّلُ ا لْمَلآءِکَۃُ وَا لرُّ وْحُ فِیْہَا بِإِ ذْنِ رَبِّھِمْ ج مِنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلاَمٌ قف ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo‘‘​

بے شک ہم نے قرآن پاک شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے!اترتے ہیں اس میں فرشتے اور روح، اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر،یہ رات سراسر سلامتی کی ہو تی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے۔(بیان القرآن،۱۲؍۱۱۱)​

تشریح وتوضیح:اس سورت شریفہ میں سوال وجواب کے انداز میں ’’شبِ قدر ‘‘کی عظمت سے انسان کو واقف کرایا گیا ہے کہ: ایک ہزار مہینے یا ۸۳ تراسی برس کی عبادت بھی اس ایک رات کی عبادت کی برابری نہیں کر سکتی۔​

وجہ تسمیہ:اس رات کو ’’شبِ قدر ‘‘کیوں کہتے ہیں؟اس کی دو وجہ بیان کی جاتی ہیں:​

(۱) ’’شبِ قدر‘‘ فارسی لفظ ہے ،جس کے معنی ہیں’’رات‘‘اور ’’قدر‘‘یا تو تقدیرسے ہے جس کے معنی مقرر کرنا ،تجویز کرنا ،اور تقدیر الٰہی کے ہیں،تو شب قدر کے معنی تقدیر کی رات کے ہیں،اور بقول قتادہ اس رات میں ہر آدمی کا رزق وروزی مقرر کیا جاتا ہے،عمر لکھی جاتی ہے،ہر طرح کے فیصلے لکھ کر ذمہ دار فرشتوں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں،’’لِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ یُقَدِّرُ فِیْہَا مَایَشَاءُ مِنْ أَ مْرِہٖ‘‘اس لئے اسکو شبِ قدر کہتے ہیں۔ (القرطبی ۲۰؍۱۳۰)​

(۲)شبِ قدر کے معنی عزت وعظمت اور شرافت کے ہیں اور بقول ابوبکر وَرَّاق ْ اس رات میں جو کتاب (قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر )اتاری ،وہ بھی قابلِ قدر ہے اور جس پیغمبرپر اتاری وہ بھی قابلِ قدر ہے ،اور جس امت پر اتاری وہ بھی امتوں میں سب سے بہتر امت ہے، تو ان قابلِ قدر چیزوں کی وجہ سے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں، جس کے معنی ہوئے عظمت والی رات۔ (القرطبی ۲۰؍۱۳۱)​


فضائل شبِ قدر:​

(۱) اسی رات میں فرشتوں کی پیدائش ہو ئی۔(مظاہر حق جدید۲؍۶۸۰)​

(۲) اسی رات جنت میں درخت لگائے گئے (ایضا)​

(۳) اسی رات حضرت آدم کا مادہ جمع ہو نا شروع ہوا (ایضا)​

(۴) اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہو ئی ۔(در منثور)​

(۵) اسی رات حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے (در منثور)​

(۶) اس رات میں بندوں کی توبہ قبول ہو تی ہے (در منثور)​

(۷) اس رات میں آسمان کے دروازے کھلے رہتے ہیں ۔​

(۱۰) عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ: اس رات میں رزق ،بارش، زندگی، یہاں تک کہ اس سال​

حج کرنے والوں کی تعداد ،لوح محفوظ سے نقل کر کے، فائلیں فرشتوں کے حوالہ کر دی جا تی​

ہیں۔’’یُکْتَبُ حَاجُّ بَیْتِ اللّٰہِ‘‘ ( ألقرطبی۲۰؍۱۳۰)​

(۱۱) اس رات میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر پوراقرآن کریم نازل ہوا ۔(مظا ہر حق)​

(۱۲) اس رات میں آسمان سے بکثرت فرشتے اترتے ہیں جو مؤمنوں کو سلام کرتے ہیں،مصافحہ کرتے ​

ہیں،ان کے لئے دعاء خیر کرتے ہیں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔’’لا یلقون فیھا مؤمنا مؤمنۃ إلا سلمو علیہ‘‘ (تفسیرأبی السعود۸؍۴۱)​

(۱۳) حضرت ابوہریرۃؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب​

کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے نیز شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے​

عبادت کرے ،تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ​

(۱۴)حضرت انسؓ فرماتے ہیں :کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضورا ​

نے فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے​

افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا’’مَنْ حُرِمَہَافَقَدْحُرِمَ الْخَیْرَکُلّہٗ‘‘ إبن ماجہ،کتاب الصیام،رقم الحدیث ۱۶۴۴)​

(۱۵) حدیث شریف میں وارد ہے کہ اس رات میں طلوع فجر تک شیطان نہیں نکلتااور نہ کسی کو فتنہ وفساد​

میں مبتلا کر سکتا ہے،’’لاَ یَسْتَطِیْعُ أَ نْ یُّصِیْبَ فِیْہَا أَ حَداً بِخَبْلٍ وَلاَ بِشَیْءٍ مِّنَ الْفَسَادِ‘‘ دیگر راتوں میں رحمتیں اور برکتیں ،آفات اور مصیبتیں دونوں نازل ہوتی رہتی ہیں،مگر شب قدر میں سعادتیں ،رحمتیں اور انعامات ربانی کا ہی نزول ہوتا ہے۔’’لاَ یُقَدَّ رُ فِیْہَا اِلاَّ السَّعَادَ ۃُ وَالنِّعَمُ‘‘ (صاوی ۴؍۳۳۶)​

(۱۶) شبِ قدر کی ساری رات فضیلت والی ہے ۔​


شبِ قدر کی علامات :​

(۱) حضرت انس ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ :وہ رات نورانی اور چمکدار ہوتی​

ہے نہ زیادہ گرم ،نہ زیادہ ٹھنڈی۔​

(۲) اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے (رات میں آسمان پر​

انگارہ اور شعلہ سا جو بھاگتا ہوا نظر آتا ہے وہ اس رات میں نہیں ہوتا )۔​

(۳) شب قدر کی صبح کو نکلنے والا سورج چاند کے مانند، شعاؤں وکرنوں کے بغیر طلوع ہوتا ہے ۔​

(۴) سمندر کا کڑوا پانی بھی اس رات میں میٹھا پایا گیا ہے۔’’عَذُ وْبَۃُ الْمَاءِ الْمِلْحِ‘‘ (الدرالمنثور۸؍۵۳۳ )​

(۵) اس رات میں انوار کی کثرت ہوتی ہے۔ ’’کَثْرُۃُ اْلأَنْوَارِ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ‘‘ ( ألقرطبی۲۰؍۱۳۰)​

(۶) اس رات میں کتے کم بھونکتے ہیں اور گدھے بھی کم بولتے ہیں۔’’قِلََّۃُ نَبْح ا لْکِلاَبِ وَنَھِیْقِ ا لْحِمَا رِ‘‘ 

صاوی۴؍۳۳۷) 


شبِ قدر کے بارے میں تجربات و قیاسات:​

متعین طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ رات کونسی تاریخ میں ہے ،البتہ رمضان المبارک اور اخیر عشرہ میں ہونے کا رجحان زیادہ ہے ،بعض حضرات نے اپنے تجربات ،قیاس، فطری ذہانت کی وجہ سے کچھ تحریر کیا ہے جو افادہ کے لئے پیش خدمت ہے ۔​

(۱) حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: شب قدر ستائیسویں رمضان کو ہی ہوتی ہے اور حسن اتفاق یہ کہ سورہ قدر کے کلمات تیس ہیں اور رمضان کے مہینے کی زیادہ سے زیادہ تعداد بھی تیس دن ہے اور سَلَامٌ ہِیَ کا (ہِیَ)جس سے مراد شب قدر ہے اس کا نمبر بھی ستائیس ہے جس کی و جہ سے بعض حضرات ستائیسویں کے قائل ہیں ،’’وَاتَّفَقَ أَ نَّ کَلِمَۃَ ھِیَ تَمَامُ سَبْعَۃِِ وَّعِشْرِیْنَ‘‘ (ایضا)​

(۲)قیاس ہے کہ شب قدر کو عربی میں ’’لَیْلَۃُ الْقَدْرکہتے ہیں جس کے حروف نو ہیں اور ’’ لَیْلَۃُ الْقَدْ رِ‘‘ اس سورت میں تین بار آیا ہے اور جب تین کو نو میں ضرب دیں گے تو پھر بھی تعداد ستائیس ہی نکلتی ہے ۲۷=۹235۳ ’’وَثَلَاثَۃٌ فِیْ تِسْعَۃٍ بِسَبْعَۃٍ وَّعِشْرِیْنَ‘‘ (ایضا)​

(۳)ابن العربی اور احمد مرزوق وغیرہ کا فرمان یہ ہے کہ: ماہ رمضان کے آخر میں اگر جمعہ اکائی راتوں مثلا :۲۵،۲۷،۲۹،میںآرہا ہے تو جمعہ سے پہلی والی رات ہی شب قدر ہوا کرتی ہے ۔ ’’ لاَتُفَارِقُ لَیْلَۃً مِّنْ أَ وْتَارِ آخِرِالشَّہْرِ‘‘ (ایضا)​

(۴)ابو حسن شاذلی جیسے صاحب کشف وکرامت بزرگ سے منقول ہے کہ: رمضان اگر سنیچر سے شروع ہو رہا ہے تو شب قدر ۲۳ویں شب کی ہوگی ،اگر اتوار کے روز شروع ہو رہا ہے تو ۲۹ کو، اور اگر پیر کے روز شروع ہو رہا ہے تو ۲۱ کو، اگر منگل کے روز شروع ہو رہا ہے تو ۲۵ کو ،اگر جمعہ کو شروع ہو رہا ہے تو ۱۷ کو، ’’ضَبَطَھَا بِأَ وَّلِ شَھْرٍ مِّنْ أَ یَّا مِ الْأُسْبُوْعِ‘‘(ایضا)​


شبِ قدر کی دعاء:​

یہ رات دعاء کی قبولیت کی رات ہے اپنے لئے ،دوست و احباب کے لئے ،اوروالدین کے لئے،تمام گزرے ہوئے لوگوں کے لئے دعا ء مغفرت کرنی چاہئے ،اورسفیان ثوری کے نزدیک اس رات میں دعاء میں مشغول ہوناسب سے بہتر ہے’’ أَلدُّعَاءُ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ أَحَبُّ مِنَ الصَّلوٰۃِ‘‘ (روح المعانی)اور دعاؤں میں سب سے بہتر وہ دعا ہے جو حضرت عائشہؓ سے منقول ہے: اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے تو مجھے بھی معاف فرمادے،’’ أَ للّٰھُمَّ إِ نَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ ا لْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ (ترمذی رقم ۳۸۲۲)​


شبِ قدر کے اعمال:​

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات میں تلاوت ، نماز دعاء وغیرہ منقول ہیں ،اس لئے مناسب یہ ہے کہ بقدر استطاعت ،تلاوت نماز وغیرہ میں مشغول رہے ، ان سورتوں اور آیتوں کی بھی تلاوت کرے جن کے بارے میں کثیر ثواب کی خوشخبری دی گئی ہے،’’وَیَتَخَیَّرُمَاوَرَدَ فِیْ قِرَاءَ تِہٖ کَثْرَۃُ ا لثَّوَابِ‘‘ (صاوی۴؍۳۳۷)​

مثلا:(۱) سورۃ بقرہ وآل عمران کی آخری آیتیں جن کا پڑھنا ایک رات کی عبادت کے برابرثواب رکھتا ہے۔(ایضاً) (ترمذی ۳۰۹۹)​

(۲)آیۃ الکرسی،جس کو قرآن کی افضل آیات ہونے کا شرف حاصل ہے، اور جس کا پڑھنے والا مرتے ہی جنت میں داخل ہو جاتاہے۔ (صاوی ۴؍۳۳۷)​

(۳)سورۂ زلزال،جس کے پڑھنے کا ثواب آدھے قرآن کے برابرہے۔’’تَعْدِ لُ نِصْفَ​

الْقُرْآنِ‘‘ (ترمذی۳۱۱۷)​

(۴)سورۂ اخلاص،جس کاثواب تہائی قرآن کے برابر ہے۔’’ تَعْدِ لُ ثُلُثَ ا لْقُرْآنِ‘‘​

(ابو دا وٗد رقم ۱۴۶۱)​

(۵)سورۂ کافرون،جس کے پڑھنے کا ثواب چوتہائی قرآن کے برابر ہے۔ ’’تَعْدِ لُ رُ بْعَ ا لْقُرْآنِ‘‘(ترمذی۳۱۱۷)​

(۶)سورۂ نصر :جس کے پڑھنے کا ثواب بھی چوتہائی قرآن کے برابر ہے۔(ترمذی ۳۱۱۶)​

(۷)سورۂ یس،جو قرآن کا دل ہے جس کا پڑھنے والا بخش دیا جا تا ہے ، اورجس کا پڑھنا دس قرآن کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ ’’مَنْ قَرَأَ یٰسٓ کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِقِرَاءَ تِھَاقِرَاءَ ۃَ الْقُرْآنِ عَشْرَمَرَّاتٍ‘‘(ترمذی عن أنس، رقم ۳۱۰۶)​

(۸) بکثرت استغفارپڑھے،نیز’’سُبْحَانَ ا للّٰہِ أَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ لاَ إِ لٰہَ إِ لاَّ اللّٰہ‘‘ کی تسبیحات پڑھے ،’’وَیُکْثِرُ ​

مِنَ الْاأ سْتِغْفَا رِ وَا لتَّسْبِیْحِ وَا لتَّحْمِیْدِ وَا لتَّھْلِیْلِ‘‘ (صاوی ۴؍۳۳۷)​

(۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔(ایضاً)​

(۱۰) اپنے لئے اوردوستوں،رشتہ داروں کے لئے پسندیدہ دعائیں مانگیں۔ (ایضاً)​

(۱۱) مُردو ں کے لئے بخشش و مغفرت کی دعائیں کریں۔ (ایضاً)​

(۱۲) اپنے ہاتھ،پاؤں،آنکھ،کان،اعضاء وجوارح کی گناہوں سے حفاظت کرے،’’وَیَحْفَظُ ​

جَوَارِحَہٗ عَنِ الْمَعَاصِیْ ‘‘ (ایضاً)​

(۱۳)اپنی وسعت وگنجائش کے مطابق صدقہ کرے’’وَیَتَصَدَّ قُ بِمَا تَیَسَّرَلَہٗ‘‘ (ایضاً)​

(۱۴)’’لاَ إِ لٰہَ إِ لاَّ ا للّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِ یْمُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘​


آدمی کسی بھی رات میں اس کو تین دفعہ پڑھ لے تو اس کو شبِ قدر کے برابر ثواب ملتا ​

ہے،اس لئے اس کو ضرور پڑھیں۔’’مَنْ قَالَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ کَانَ کَمَنْ أَدْرَکَ لَیْلَۃَ الْقَدْ رِ‘‘(کنز العمال۲؍۱۰۰، رقم ۳۸۶۵، مرسلاعن الزھری)​


اللہ پاک ہمیں شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

Post a Comment

0 Comments